تفسير ابن كثير



سورۃ يونس

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ[88] قَالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ[89]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب! بے شک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں بہت سی زینت اور اموال عطا کیے ہیں، اے ہمارے رب! تاکہ وہ تیرے راستے سے گمراہ کریں، اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ [88] فرمایا بلاشبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے پر ہرگز نہ چلو جو نہیں جانتے۔ [89]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے۔ اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیئے ہیں کہ) وه تیری راه سے گمراه کریں۔ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست ونابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ ﻻنے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں [88] حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، سو تم ﺛابت قدم رہو اور ان لوگوں کی راه نہ چلنا جن کو علم نہیں [89]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں (بہت سا) سازو برگ اور مال وزر دے رکھا ہے۔ اے پروردگار ان کا مال یہ ہے کہ تیرے رستے سے گمراہ کردیں۔ اے پروردگار ان کے مال کو برباد کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں [88] خدا نے فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور بےعقلوں کے رستے نہ چلنا [89]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 88، 89،

فرعون کا تکبر اور موسیٰ علیہ السلام کی بددعا ٭٭

جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر، تحیر، تعصب بڑھتا ہی گیا۔ ظلم و ستم بے رحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے۔‏‏‏‏

یہ مطلب تو ہے جب «لِيَضِلُّوْا» پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب «لِیُضِلُّوْا» پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لیے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے۔ چنانچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہو گئیں۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ اس سورۃ یونس کی تلاوت امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃالمسلمین نے سوال کیا کہ یہ «طْمِسْ» کیا چیز ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا۔ [الدر المنشور للسیوطی:566/3:ضعیف] ‏‏‏‏۔
3760

اور دعا کی کہ پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگا دے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو۔‏‏‏‏ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آ گئی۔ نوح علیہ السلام کی دعا ہے کہ «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا» [71-نوح:26،27] ‏‏‏‏ ” الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اوروں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہو گی وہ بھی انہیں جیسی بے ایمان بدکار ہوگی “۔

جناب باری نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی۔ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے۔ اسی وقت وحی آئی کہ ہماری یہ دعا مقبول ہوگئی سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ علیہ السلام تھے آمین کہنے والے ہارون علیہ السلام تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔ پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے۔

” پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ “۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن۔
3761



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.